شیخ الحدیث مولانا سید محمد عاقل کی وفات
حسرت آیات
علمی وفکری حلقوں میں یہ خبر انتہائی رنج وغم کے ساتھ سنی
جائے گی کہ آج قدیم ترین مرکزِ علم جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے شیخ الحدیث حضرت
مولانا سید عاقل صاحب طویل علالت کے بعد انتقال فرما گئے. حضرت کی وفات عالم اسلام
کے لیے عظیم خسارہ ہے،
آپ کی
پیدائش 9؍شعبان 1355ھ مطابق 15؍اکتوبر 1937ء میں ہوئی
جنوری 1947 میں بعمر دس سال قرآن پاک سہارنپور کی جامع
مسجد میں حفظ شروع کیا اور 18؍اکتوبر 1950ء میں حفظ مکمل ہوا۔پہلی محراب 1953ء میں
خاندانی مسجد ’’مجد حکیمان ‘‘میں سنائی۔
از ابتداء تا دورہ و فنون مظاہرعلوم میں تعلیم حاصل کی
اور شعبان 1380ھ مطابق جنوری 1961ء میں دورہ حدیث سے فراغت اس کے بعد ایک سال میں
فنون کی تکمیل کی۔
بخاری شریف حضرت شیخ مولانا محمد زکریاؒ سے مولانا منظور
احمد خان صاحب سے مسلم،ابوداؤد مولانا اسعداللہ صاحبؒ سے ترمذی و نسائی مولانا امیر
احمد کاندھلویؒ سے پڑھی۔
مظاہرعلوم کے سابق شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوریؒ،مولانا
شجاع الدین حیدرآبادی،مولانا اجتباء الحسن کاندھلوی آپ کے رفقاء درس تھے۔
قوت مطالعہ ،ذہانت و فطانت اور بلند پایہ علمی استعداد کی
وجہ سے طلباء ابتداء ہی سے آپ سے متأثر تھے چنانچہ جس زمانہ میں آپ مظاہرعلوم میں
پڑھ رہے تھے تو طلبہ آپ سے کتابوں میں علمی مراجعت کیا کرتے تھے ،جس کا تذکرہ
حضرت شیخ مولانا محمد زکریاؒ نے اپنے روزنامچہ میں بھی کیا ہے ۔
جمادی الثانی 1381ھ /دسمبر 1961ء آپ مظاہرعلوم میں بلا
معاوضہ معین مدرس مقرر کئے گئے ایک سال بعد باقاعدہ استاذ بنائے گئے اور شرح تہذیب
اور نور الانوار آپ کے زیر درس رہیں۔
شوال 1386ھ /جنوری 1967ء آپ کو باقاعدہ مظاہرعلوم کا
استاذ حدیث مقرر کیا گیا اور اسی سال سے ابو داؤد شریف آپ کے زیر درس آئی اور
تقریباً پچاس سال تک یہ سبق آپ سے متعلق رہا۔
ذی قعدہ 1390ھ/جنوری 1971ء میں مجلس شوریٰ نے آپ کو
مظاہرعلوم کا صدر مدرس منتخب کیا اور عہدۂ جلیل پر پچاس سال سے زائد فائز رہ کر
ضعف جسمانی اور مطالعاتی مشغولی کی وجہ سے دو سال پہلے اس عہدہ سے سبکدوشی اختیار
فرمائی۔
بیعت و اجازت
بیعت و ارشاد کا تعلق حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا
مہاجر مدنیؒ سے تھا اور حضرت ہی سے اجازت بیعت بھی حاصل تھی۔
تصنیفات و تالیافات
تصنیف و تالیف کے ذوق کی وجہ سے حضرت شیخ الحدیثؒ کے تصنیفی
کاموں میں معاون تھے ،چنانچہ مضامین و مباحث کا تتبع اور تلاش حضرت نے آپ سے
متعلق کررکھا تھا ،اُس زمانہ میں حضرت شیخ کی تالیفات ’’لامع الدراری جلد
دوم،فضائل درود شریف،جزء حجۃ الوداع و عمرات النبی،اور الابواب والتراجم‘‘ ،کی تصنیف
و تالیف میں حضرت کے ساتھ مل کر مضامین کا املا کرنا وغیرہ آپ کی ذمہ داری تھی۔
حضرت شیخ الحدیثؒ کے ساتھ تصنیفی کاموں میں لگے رہنے کی
وجہ سے چونکہ آپ کا مزاج و مذاق بھی تصنیف و تالیف کا ہوچکا تھا اس لئے ربیع
الاول 1398ھ/فروری ۱۹۷۸ء میںبزبانِ عربی ’’تعریف وجیز عن جامعۃ مظاہرعلوم ‘‘نامی
کتابچہ تصنیف فرمایا۔
حضرت اقدس مولانا گنگوہیؒ کے درس مسلم کے افادات جو حضرت
شیخؒ کے پاس جمع تھے ،حضرت شیخ کی خواہش کے مطابق ان پر مولانا سید محمد عاقل صاحب
نے حواشی لگائے اور ۶۴۴؍صفحات پر مشتمل شائع کرایا ۔
مقدمہ الکوکب الدری،الفیض السمائی،الدرالمنضود،ملفوظات
حضرت شیخ،مختصر فضائل درودشریف،وغیرہ تصنیفات آپ کی علمی یادگار ہیں ۔
نکاح و اولاد
11؍رجب 1381/18؍دسمبر 1961ء آپ کا نکاح حضرت شیخ ؒ کی
صاحبزادی سے حضرت اقدس رائے پوری قدّس
سرّہٗ کی موجودگی میں حضرت ہی کے حجرہ میں مولانا محمد یوسف کاندھلوی نے پڑھایا ۔
ہزاروں کی تعداد میں آپ کے تلامذہ جو آپ کی روحانی
اولاد ہیں ان ساتھ ساتھ آپ کے کل بارہ صلبی اولادیں ہیں جن میں چھ لڑکے مولانا
محمد جعفر ،مولانا محمد عمیر،مولانا محمد عادل،مولانا محمد عاصم،مولانا محمد ثانی،مولانا
محمد قاسم اور چھ لڑکیا ں ہیں ۔
انتقال
ماہ شعبان میں حسبِ معمول بخاری شریف و مسلسلات کے اسباق
کی تکمیل فرمائی ،پھر نقاہت و کزوری زیادہ ہوگئی تو بغرض علاج حیدرآباد میں چلے
گئے ،کچھ افاقہ ہوا تو سہارنپور تشریف لائے ،حسبِ سہولت مدرسہ بھی تشریف لاتے رہے
اور ماہ مبارک میں حسبِ معمول آخری عشرہ کے اعتکاف کی سرپرستی بھی فرمائی۔
ماہ شوال میں نقاہت اور جسمانی کمزوری زیادہ ہوگئی تو
متعلقین کے مشورہ سے انھیں شہر میرٹھ کے ایک پرائیویٹ ہاسپیٹل میں بغرض علاج داخل
کرایا گیا ،جہاں ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں علاج جاری رہا ،مؤرخہ 28؍شوال
1446ھ/27؍اپریل 2025ء اتوار کے روز ڈاکٹروں کے مشورہ سے ان کو سہارنپور گھر واپس
لایا گیا اور بالآخر 29؍شوال 1446ھ/28؍اپریل 2025ء دوشنبہ کے روز دوپہر پونے بارہ
بجے آسمانِ علمِ حدیث کا یہ روشن ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا ۔
اللہ تعالی غریق رحمت فرمائے ،متعلقین مسترشدین اور پس
ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔آمین۔