ملائیشیا کی اسلامی
پارٹی کے سربراہ کی فتویٰ جہاد کے حق میں تحسین، اور امت کی وحدت پر زور.
ملائیشیا کی اسلامی پارٹی کے صدر،
جناب عبد الہادی اوانگ نے عالمی اتحاد برائے مسلم اسکالرز کی فقہ و اجتہاد کمیٹی کو
مبارکباد اور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فلسطین کی نصرت میں جاری کیے گئے فتویٰ جہاد
کی بہادری سے تعبیر کیا، اور پوری امتِ مسلمہ سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے
دفاع کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور توانائیوں کے ساتھ شرعی فریضہ ادا کرے۔
انہوں نے اتحاد کی قیادت کو ایک آفیشل
پیغام میں کہا کہ یہ بابرکت فتویٰ مسلمانوں کے دلوں میں امید کی تجدید ہے اور امتِ
مسلمہ میں عزت و وقار کے مفاہیم کو زندہ کرنے کا ذریعہ ہے۔
اوانگ نے واضح کیا کہ اس فتویٰ کی
علانیہ حمایت اسلامی دنیا میں شعور کی بیداری اور صفوں کی وحدت اور کوششوں کے اتحاد
کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے، تاکہ غزہ کے عوام اور پوری امت مسلمہ پر ہونے والے ظلم و
جارحیت کا سامنا کیا جا سکے۔
اسی تناظر میں اوانگ نے اُن فتاویٰ
کا علمی اور شرعی جواب کی ضرورت پر زور دیا جو جہاد کے وجوب پر شبہ ڈالتی ہیں، اور
مصر کے مفتی کی جانب سے اس مسئلے میں جہاد کی نفی کرنے والے فتویٰ کا حوالہ دیتے ہوئے
کہا کہ ان شبہات کو رفع کرنا اور حقائق کو واضح کرنا از حد ضروری ہے۔
غزہ پر جارحیت کا مقابلہ
واضح رہے کہ عالمی اتحاد برائے مسلم
اسکالرز کی فقہ و اجتہاد کمیٹی نے 28 مارچ کو غزہ پر جاری صیہونی حملے کے حوالے سے
ایک جامع شرعی فتویٰ جاری کیا تھا، جس میں درج ذیل نکات پر زور دیا گیا:
ہر اس مسلمان پر جو اس کی استطاعت
رکھتا ہو، فلسطین میں قابض قوتوں کے خلاف ہتھیار کے ساتھ جہاد فرض ہے۔
عرب و اسلامی ممالک کی جانب سے جارحیت
روکنے کے لیے فوری فوجی مداخلت واجب ہے۔
صیہونی دشمن کا بری، بحری اور فضائی
محاصرہ کیا جائے، جس میں اسلامی و عرب ممالک کی آبی گذرگاہیں، سمندری راستے اور فضائی
حدود شامل ہوں۔
فلسطینی مزاحمت کی فوجی، مالی، سیاسی
اور انسانی حقوق کے محاذوں پر امداد دینا شرعی فریضہ ہے۔
امت مسلمہ کے دفاع اور جارح قوتوں
کو روکنے کے لیے ایک اسلامی عسکری اتحاد کا قیام ایک فوری اور شرعی ضرورت ہے۔
صیہونی دشمن کے ساتھ کسی بھی قسم کا
تعلق یا تیل و گیس کی فراہمی حرام ہے۔
ان امن معاہدوں پر نظرثانی کی جائے
جو بعض عرب ممالک نے صیہونی ریاست کے ساتھ کیے ہیں۔
غزہ کے عوام کی مالی مدد کے لیے مالی
جہاد واجب ہے، اور سرحدی گذرگاہوں کو فوری طور پر کھولا جائے۔
امریکہ میں مقیم مسلمان برادریوں سے
مطالبہ کیا گیا کہ وہ امریکی حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ جارحیت رکے اور امن قائم ہو۔
یہ فتویٰ عالم اسلام میں مختلف حلقوں
سے بھرپور قبولیت حاصل کر چکا ہے، جس میں فلسطینی مزاحمت کی کھلی حمایت اور صیہونی
ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کو واضح طور پر مسترد کیا گیا ہے۔
علماء اور عوام کی جانب
سے مسلسل حمایت
جناب عبد الہادی اوانگ کی جانب سے
دی جانے والی سرکاری حمایت اس حقیقت کا مظہر ہے کہ اسلامی دنیا میں عوامی اور علمی
سطح پر صیہونی قبضے کے خلاف مزاحمت کے لیے شعور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ موقف شرعی اقدار
سے وابستگی اور فلسطینی عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کے خلاف مؤثر یکجہتی کا عکاس ہے۔
اسی طرح مختلف علمی اداروں اور تنظیموں
نے بھی اس فتویٰ کی بھرپور حمایت کی ہے، جو کہ ان چیلنجوں کے مقابلے میں اسلامی موقف
کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔
(ماخذ: دفتر اطلاعات)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* لقراءة الخبر باللغة العربية، اضغط على كلمة (هنا)