بحث وتحقیق

تفصیلات

شہرۂ آفاق محدثین کا فقہی رجحان اور مسلکی مزاج

شہرۂ آفاق مُحدّثِین کا فقہی رجحان اور مسلکی مزاج   
✍ مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی 
رکن الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین 

احکام شریعت کو تفصیلی دلائل کے ساتھ جاننے کا نام فقہ ہے. اسی طرح  ان چیزوں  کے جاننے کو بھی" فقہ" کہتے ہیں جو نفس کے لیے مفید یا مضرت رساں ہیں ۔بالفاظ دیگر" فقہ" نفس کے حقوق و فرائض جاننے کا نام ہے. 
( "والفقه معرفة النفس ما لها وما عليها".) شرح التلويح على التوضيح (1/ 16): 
”فقہ“ درحقیقت اسلامی تعلیمات کا نچوڑ، قرآن کریم اور سنتِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے مستفاد اور ان کا خلاصہ ہے . 
قرآن کریم میں تفَقُّہ فی الدین کی ضرورت و اہمیت کو اللہ تعالیٰ نے سورہٴ توبہ آیت: ۱۲۲ میں یوں بیان فرمایا : ﴿فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْہُمْ طَائِفَةٌ لِیَتَفَقَّہُوا فِی الدِّینِ﴾  
ترجمہ: اور مسلمانوں کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ سب کے سب جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں؛ سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں. کو ڈرائیں تاکہ وہ گناہوں سے بچ سکیں ۔
فقہ سراپا خیر ہے اور تفَقّہ فی الدین ایک عظیم نعمت ہے. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: من یُرد اللہ بہ خیرًا یُفقّہہ في الدین ”جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں؛ اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں“ (صحیح بخاری، رقم 6496)
سیدنا عمرفاروقؓ ارشادفرماتے ہیں:
’’تَفَقَّهُوْا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوْا‘‘[بخاری ،کتاب العلم 1/25]سردار بنائے جانے سے پہلے تفقہ حاصل کرو یا بالوں کی سفیدی سے پہلے فقہ اور دین کا فہم حاصل کرو۔
صاحب کنزالعمال لکھتے ہیں:
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا  تواہل الرائے اور اہل الفقہ کومشورہ کے لیے بلالیتے، مہاجرینؓ وانصارؓ میں سے اہلِ علم کوبلاتے، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اورحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ اورحضرت ابی بن کعبؓ اورحضرت زید بن ثابتؓ کوبلاتے،یہی لوگ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت میں فتوےٰ دیا کرتے تھے،پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے وہ بھی انہی حضرات سے مشورہ لیا کرتے تھے اور فتویٰ کا مدار انہی حضرات پر تھا۔
(کنز العمال:۳/۱۳۴)
 امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ  (المتوفیٰ 204ھ) فرماتے ہیں: "ائمہ کرام نے جتنی باتیں بیان فرمائی ہیں وہ سب حدیث ہی کی شرح ہیں اور پورا ذخیرہ احادیث قرآنِ کریم کی شرح ہے"۔
’’وقال الإمام الشافعي، رضي الله عنه: جميع ما تقوله الأمة شرح للسنة، وجميع شرح السنة شرح للقرآن‘‘.الإكليل في استنباط التنزيل. للسیوطی(ص: 11) 
صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عام صحابہ کو جب کسی مسئلے کا حکم معلوم کرنا ہوتا تو وہ فقہائے صحابہ سے تحقیق کرتے یہ سلسلہ عہد تابعین میں بھی جاری رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ نفوس قدسیہ کو فقہ اسلامی کی تدوین کے لیے قبول فرمالیا. 
مذکورہ روایت سے یہ بھی ظاہرہے کہ عام طور پر صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کرنے والے اور آپ کی احادیث کو جاننے والے تھے ،مگر اہل الرائے اور اہل الفقہ صرف فقہاء صحابہؓ ہی تھے، جن کی تعداد مختصر تھی،علامہ ابن القیم نے اعلام الموقعین میں تفصیل سے فقہاء صحابہ کی تفصیل درج کی ہے. 
فقہ اور حدیث میں ربط :
سلف صالحین کے نزدیک "فقہ" حدیث سے جدا کوئی چیز نہ تھی،یہ قرآن وحدیث کی ہی تفسیر ہوتی تھی،اسے قرآن وحدیث سے الگ کر کے پیش کرنا اور اسے محض رائے سمجھ لینا بدنیتی پر مبنی طرز عمل ہے. 
سو ید بن نصرؒ جو کہ امام ترمذیؒ اورامام نسائیؒ کے شیوخ میں سے ہیں. فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارکؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:
"لاتقولوا رای ابو حنیفۃ ولکن قولوا تفسیر الحدیث"۔ (کتاب المناقب للموفق:۲/۵۱)
ترجمہ: یہ نہ کہا کرو ابو حنیفہ کی رائے بلکہ کہو یہ حدیث کی شرح اور تفسیر ہے۔
سچائی یہ ہے کہ" فقہ" قرآن وسنت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے، فقہ کے خلاف ذہن بنانا درحقیقت خود حدیث سے بدگمان کرنا ہے. 
تدوین فقہ کی ضرورت :
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب ،تاریخ ِ علم ِ فقہ میں لکھتے ہیں:
’’عہد رسالت کے بعد جب اسلام کی حدود بہت بڑھ گئیں، قیصر وکسریٰ کی حکومتیں اسلام کے زیر نگیں ہو گئیں، یورپ میں اندلس تک افریقہ میں مصر اور شمالی افریقہ تک اور ایشیا میں ایشیائی ترکستان اور سندھ تک اسلام پھیل گیا تو اسلام کو نئے تمدن، نئی تہذیب اور نئی معاشرتوں سے سابقہ پڑا ”وسائل اور مسائل کی نئی نئی قسمیں پیدا ہوگئیں تو تابعین کے آخرعہد میں علمائے حق کی ایک جماعت نے کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر اس کے مقرر کردہ قوانین و حدود کے مطابق ایک ایسا ضابطہ حیات مرتب کرنا چاہا جو ہرحال میں مفید، ہر طرح مکمل اور ہر جگہ قابل عمل ہو‘‘-(خطبات بھاولپور خطبہ 3)
یہی ضابطہ حیات "فقہ" ہے 
فقہ قرآن وسنت کا ثمرہ :
فقہ دراصل قرآن وسنت ہی کی عملی تفسیر ہے۔
حدیث کا علم اوراس سے شغف جتنا ایک محدث کو ہوتاہے؛ اتنا ہی ایک فقیہہ کو بھی،اگر محدثین کا الفاظِ احادیث پر زیادہ زور رہتا ہے تو فقہاء کے یہاں ان کے معانی پیش نظر رہتے ہیں۔ 
چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں کہ ”فقہ"سہل الحصول کے ساتھ ساتھ حدیث کا ہی ثمرہ ہے اور آخرت میں فقیہ کا ثواب محدث کے ثواب سے کم نہیں ہے“(تہذیب الکمال ۲۴/۴۶۴)
 فقہاء اطباء ہیں اور ہم صیادلہ! 
اوریہی نہیں کہ حدیث و فقہ میں انتہائی گہرا ربط ہے؛ بلکہ امام اعمش تو یہاں تک کہہ گئے کہ ”اے فقیہو! آپ لوگ طبیب ہیں، اور ہم دوافروش ہیں“ اس سلسلے کے واقعہ کو اصحابِ تاریخ نے تفصیل سے لکھا ہے. 
ابو وہب عبیداللہ بن عمرو جزری اسدی کہتے ہیں کہ میں حضرت اعمش کی مجلس  میں حاضر تھا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور ان سے ایک مسئلہ پوچھا تو انہوں نے اس کا جواب نہیں دیا۔حضرت ابوحنیفہ بھی وہیں تشریف فرما تھے. حضرت اعمش نے ان سے کہا کہ آپ جواب دیں. انھوں نے تشفی بخش جواب دیا. حضرت اعمش نے دریافت کیا کہ آپ نے کہاں سے یہ جواب دیا تو انھوں نے کہا: فلاں فلاں حدیث آپ نے ہم سے بیان کی،انھیں کی روشنی میں میں نے یہ جواب دیا. حضرت اعمش نے کہا، اے گروہ فقہاء، تم لوگ طبیب ہو اور ہم دوا فروش پنساری ہیں . 
قال أبو وهب عبيد الله بن عمرو الجزري الأسدي: كنت في مجلس الأعمش فجاءه رجل فسأله عن مسألة فلم يجبه فيها، ونظر فإذا أبو حنيفة فقال: يا نعمان، قل فيها فقال أبو حنيفة: القول فيها كذا، فقال الأعمش: من أين قلت؟ فقال أبو حنيفة: من حديث كذا أنت حدثتناه، فقال الأعمش يا معشر الفقهاء أنتم الأطباء ونحن الصيادلة.
أخرجه ابن عدي في كتابه الكامل (ج8/ص238)( الفقہ والمتفقہ بغدادی ۲/۷۴، مناقب ابی حنیفہ ذہبی،ص:۲۱) 
آثار و احادیث سفیان کے پاس ان کے دقائق ابو حنیفہ کے پاس :
عبداللہ بن داؤدؒ کہتے ہیں:
"جب کوئی آثار یاحدیث کا قصد کرے تو (اس کے لیئے) سفیانؒ ہیں اور جب آثار یاحدیث کی باریکیوں کومعلوم کرنا چاہے توامام ابوحنیفہؒ ہیں"۔(سیرالاحناف:۲۹)
صحاح ستہ کے مصنفین کا طرز عمل:
ائمہ حدیث میں سے امام بخاری اور امام مسلم  نے اپنی کتابوں میں احادیث کے بڑے ذخیرے سے اعلی درجہ کی صحیح احادیث کا انتخاب فرمایا۔ اس کے ساتھ امام بخاری نے تراجم میں اپنی فقاہت کو سمودیا. امام ترمذی، امام ابوداؤد، امام نسائی ، امام ابن ماجہ، امام دارمی وغیرہ حضرات نے اصل کوشش اس پر صرف کی کہ فقہائے کرام کے مستدلات یکجا کردیئے جائیں،تاکہ فقہاء کی آراء کے مآخذ واضح ہوجائیں، اور یہ واضح کردیا جائے کہ جو مسلک چل رہا ہے اس کے پیچھے دلائل کیا ہیں اور ان دلائل کی حیثیت کیا ہے. گویا ان کتب حدیث کی ابواب فقہیہ پر ترتیب ہی اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ" فقہ الحدیث" ہی ان کے مصنفین کا بنیادی محور ہے. امام ترمذی نے اس امر کا بھی اہتمام کیا ہے کہ جن فقہاء کا ان احادیث پر عمل ہے ہر باب میں اسے بھی درج کیا ہے. 
فقہی مکاتب :
یوں تو شروع میں بہت سے فقہی مکاتب وجود میں آئے؛ لیکن  مستقل حیثیت چار ہی کو حاصل رہی. اور بتدریج امت انھیں چار پر مجتمع ہوگئی. 
اگرچہ انفرادی اجتہاد کا رنگ بعد میں بھی متعدد اہل علم کے یہاں نظر آتا ہے. 
علامہ عبد الحی لکھنوی لکھتے ہیں:​
«فقد وجد بعدهم أيضا أرباب الاجتهاد المستقل كأبي ثور البغدادي و داود الظاهري و محمد بن إسماعيل البخاري وغيرهم على ما [ لا] يخفى على من طالع كتب الطبقات .» [النافع الكبير 16] ​
”ان کے بعد بھی اجتہاد مستقل والے حضرات ہوئے ہیں جس طرح کہ ابوثور بغدادی، داؤد ظاہری اور محمد بن اسماعیل بخاری وغیرہ ہیں، جس نے کتب طبقات کامطالعہ کیا ہے اس پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے۔“
لیکن ایک مسلک کے طور پر امت نے ان کے اجتہادات کو قبول نہیں کیا. 
مذاہبِ اربعہ بمنزلہ شرح :
مذاہب اربعہ کو ہی اعتبار اور قبولیت حاصل حاصل رہی.. یہ مذاہب اربعہ بھی علحدہ کچھ نہیں تھے بلکہ دین شریعت کی عملی شکلیں تھیں. شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں :
مذہب فاروق اعظم بمنزلۃ متن است ومذاہب اربعۃ بمنزلئہ شروح ... ازالۃ الخفاء ج2 ص 82
حضرت عمر فاروق رض کا مذہب متن کی طرح ہے ۔ اور حضرات ائمہ اربعہ ؒ کے مذاہب اس کے شروح کی مانند ہیں. 
یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی محدث فقہ سے مستغنی نہیں ہوسکتا، البتہ ذیل کے سطور میں اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ وہ محدثین جنھوں نے بے انتہا جانفشانی اور کافی تحقیق وتدقیق اور چھان پھٹک کرنے کے بعد امت مسلمہ کے سامنے حدیث کا عظیم سرمایہ پیش کیا، جن کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں اسلام کا دوسرا ماخذ تشریع محفوظ ہوا، بالخصوص صحاح ستہ ودیگر مستند کتب حدیث کے مصنفین کا فقہی ذوق اور مسلکی رجحان کیا تھا، چونکہ مشہور مصنفین کتب حدیث کا زمانہ عام طور پر ائمہ اربعہ کے بعد کا ہے، اس لیے یہ بھی جائزہ لیا جائے گا کہ ائمہ اربعہ میں سے کس امام کے مسلک سے یہ حضرات مربوط رہے.
ائمہ محدثین کا اپنے اکابر سے استفادہ :
اس سلسلے میں ایک متفق علیہ حقیقت یہ ہے کہ: 
ائمہ محدثین اپنی تمام تر علمیت اور جلالت شان کے باوجود عام طور پر ائمہ مجتہدین، سلف صالحین اور اپنے بڑوں سے  استفادہ کرتے تھے، ان کے علم وفضل پر اعتماد کرتے تھے، قرآن کریم کی آیات کی کو جو تفسیر اور احادیث کی جو تشریح ان کے اساتذہ و شیوخ کرتے تھے اسے وہ معتبر سمجھتے تھے، مجتہد فیہ مسائل میں اپنے شیوخ کے اقوال، آراء اور منہج سے استفادہ کرتے تھے اور ان کی آراء واقوال کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے؛ بلکہ ان کی تقلید بھی کرتے تھے. 
تقلید و اتباع کے مراتب:
تقلید کے تین درجات ہیں.(١) اول یہ کہ 
اپنے سے بڑے کے قول کو محض ان پرحسن ظنی اور اعتماد کرتے ہوئے تسلیم کرنا، دلیل ہو یا نہ ہو ،(٢)دوم یہ کہ اپنے سے بڑے کے قول کو حسن ظن کی بنیاد پر بغیر مطالبہ دلیل کے تسلیم کرنا. دلیل اگرچہ اپنے مقام پر موجود ہو ، لیکن مقلد اپنے سے بڑے کی بات ماننے میں دلیل کا محتاج نہ ہو ،(٣)تیسرا درجہ یہ ہے مجتہد فیہ مسائل میں کسی بڑے کی رائے اور اجتہاد  کی اتباع علی وجہ البصیرۃ کرنا، یا ان کی تحقیق تفسير پر اعتماد کرنا یا ان کے اصول کے مطابق مسائل کا استنباط یا تخریج کرنا ..
کبار اہل علم وتحقيق اور شہرہ آفاق محدثین کے بارے میں تقلید کے پہلے اور دوسرے درجے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے. 
حسن ظن کی بنیاد پر بلامطالبہ دلیل بات مان لینا :
تقلید کا اطلاق جب کبار اہل علم محدثین پر کیا جاتا ہے تو یہی تیسرا درجہ مقصود ہوتا ہے. 
قال الشافعی ؒ فی مواضع من الحجج قلتہ تقلیدا لعطاء ... ( قنوجی :الجنۃ فی الاسوۃ الحسنۃ بالسنۃ ص 68 ) حضرت امام شافعی ؒ نے بہت سے مقامات میں کہا ہے کہ میں نے حضرت عطاء ؒ کی تقلید میں یہ کہا ہے.
حضرت امام شافعی ؒ جیسے محدث مجتہد اور فقیہ حضرت عطاء ؒ سے حسن ظن کی بناء پر احتجاج کرتے ہیں ۔ اور صاف کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء ؒ کی تقلید کرتے ہوئے ایسے کہا ہے ...
علامہ خطیب بغدادی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ نقل کرتے ہیں کہ ایک مسئلہ کی تحقیق میں ایک سائل نے کہا کہ اس میں تو کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے اس پر حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ اگر حدیث موجود نہیں تو نہ سہی ۔ اس میں حضرت امام شافعی ؒ  کا قول تو موجود ہے ۔ اور حضرت امام شافعی ؒ کا قول تو ایک مستقل حجت اور دلیل ہے ،( ففیہ قول الشافعی و حجتہ ، اثبت شئی فیہ ) ( عراقی :تاریخ بغداد ج2 ص67. المزی جمال الدین، تہذیب الکمال ج9 ص28 )
امام احمد بن حنبل کے سامنے کسی نے ابو منذر کی تعریف کی. تو آپ نے فرمایا میں اس کو نہیں جانتا۔ پھر آپ نے کہا کہ 
لیکن حیرت ہے کہ تم عبد الله بن عبد الرحمن (دارمی) سے واقف نہیں ہے پھر آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا تم اس سردار کے حلقۂ فیض سے وابستہ رہنا یہ چیز تمہارے لئے ضروری اور لازم ہے۔ (لكن اين انت عن عبد الله بن عبد الرحمن علیک بذاک السید علیک بذاک السید. "(ایضاً)
اسی طرح ایک موقع پر امام احمد بن حنبل سے یحییٰ بن حمانی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:  ہم نے امام دارمی کے قول کی بناء پر اس کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ امام ہیں۔(تركناه بقول عبد الله بن عبد الرحمن لانہ امام.) 
( تہذیب الکمال.( 15/224)
ہر امام و مجتہد تقلید کرتے ہیں :
نواب صدیق حسن قنوجی لکھتے ہیں: کہ ہر امام اور مجتہد اپنے سے زیادہ علم والے کی بعض احکام مسائل میں تقلید کرتے تھے. 
( فلا تجد احدا من الائمۃ الا وھو مقلد من ھو اعلم منہ فی بعض الاحکام ... (قنوجی. الجنۃ  فی الاسوۃ الحسنۃ بالسنۃ ص68 )
تم حضرات ائمہ کرام ؒ میں سے کسی ایک کو بھی نہیں پا سکتے کہ وہ بعض مسائل میں  اپنے سے کسی بڑے عالم کی تقلید نہ کرتے ہوں. 
تقلید کے جائز اور درست ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ سلف صالحین کا ہمیشہ سے اس پر عمل رہا ہے۔ بڑے بڑے اہلِ علم  محدثین اور فقہاء بھی تقلید پر عمل پیرا تھے۔لیکن ان کی تقلید کسی عامی یا ہمہ شما کی تقلید کی طرح نہیں تھیا؛ بلکہ ان میں سے کئی حضرات اجتہاد کے مقام پر فائز تھے، پھر بھی احتراما یا احتیاطاً ان کا طرز عمل یہ تھا کہ  منصوص مسائل میں قرآن وحدیث کی جو تفسیر ان سے بڑے فقہاء نے کی، اس پر اعتماد کرتے تھے اور اسی کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے اسی طرح مجتہد فیہ مسائل میں ان مجتہدین کی رائے اور اجتہاد پر عمل کرتے تھے بطورِ نمونہ چند اہم نام یہاں ذکر کئے جاتے ہیں. 
(1) لیث ابن سعد مصری (متوفی ۱۷۵) بڑے محدث اور ممتاز فقیہ ہیں، اپنی فقاہت اور تبحر علمی کے ساتھ مجتہدانہ شان رکھتے ہیں. اس کے باوجود فقہ میں کثرت سے وہ امام ابو حنیفہ سے استفادہ کرتے ہیں. یہاں تک کہ متعدد اہل علم انھیں حنفی المسلک شمار کرتے ہیں ۔ مشہور اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن خان تحریر فرماتے ہیں:و ے حنفی مذہب بود و قضائے مصر داشت‘‘ (قنوجی. اتحاف النبلاء المتقين باحياء مآثر الفقهاء.  ۲۳۷) 
یعنی لیث بن سعد حنفی المذہب تھے اور مصر کے قاضی کے طور پر خدمات انجام دیا کرتے تھے. 
وقال الشافعي:«الليث أفقه من مالك، إلا أن أصحابه لم يقوموا به»(سير أعلام النبلاء للذهبي -) 
امام شافعی کہتے ہیں کہ لیث بن سعد امام مالک سے بھی بڑے فقیہ تھے؛ لیکن انھیں ایسے اصحاب اور تلامذہ نہیں ملے جو ان کے علوم کی تدوین واشاعت کریں. 
موصوف کے بارے میں علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ فقہ حنفی کے دلدادہ تھے. 
ألمّ بفقه أبي حنيفة ومالك بل وكان على اتصال بمالك من خلال المراسلات.(] مناهج التشريع الإسلامي في القرن الثاني الهجري، محمد بلتاجي،ص381]
شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی نے لکھا ہے کہ :لیث بن سعد امام شافعی کے استاد ہیں ، اور فقہی نقطہ نظر سے حنفی ہیں (عمدۃ القاری) 
(2) امیر المومنین فی الحدیث عبداللہ بن مبارکؒ۔(م ۱۸۱ھ) :جماعتِ محدثین کے سرخیل ہیں. امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں؛ وہ بھی کثرت سے امام ابو حنیفہ سے استفادہ کرتے ہیں. یہاں تک کہ علامہ ابو الولید باجی مالکی نے لکھا ہے کہ وہ بھی امام ابوحنیفہؒ کے اصحاب و مقلدین میں سے ہیں (شرح مؤطاللباجی مالکی ۷/ ۳۰۰ ٗ  مفتاح السعادۃ ۲/ ۱۱۲) 
(3) وکیع بن جراحؒ (متوفی ۱۹۷ھ)بڑے بلند پایہ محدث ہیں اور امام شافعی ؒ جیسے جلیل القدر محدث اور فقیہ ان کے تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ بھی کثرت سے امام ابو حنیفہ کے اقوال سے استفادہ کرتے ہیں.. اہل علم نے لکھا ہے کہ وہ بھی امام ابوحنیفہؒ کے اقوال کی تقلید کرتے تھے اور اس کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے ۔ 
حافظ شمس الدین ذ ہبی کا بیان ’’ کان یفتی بقول ابی حنیفۃ‘‘(تذکرۃ الحفاظ للذھبی ۱ / ۲۸۲) 
امام وکیع بن الجراح کی علمی منزلت اور فن حدیث میں مرکزی حیثیت اہلِ علم سے مخفی نہیں ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم آپ کی مرویات سے بھری پڑی ہیں، علمِ حدیث کے ایسے بالغ نظر علماء کا امام ابوحنیفہؒ سے حدیث سننا اور پھراِن کا اس قدر گرویدہ ہوجانا کہ انہی کے قول پر فتوےٰ دینا حضرت امام کی علمی منزلت کی ناقابلِ انکار تاریخی شہادت ہے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں:
"وکان (وکیع) یفتی برأی أبی حنیفۃ وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ حدیثاً کثیراً"۔
(الانتقاء في فضائل الائمة الثلاثة الفقهاء. ابن عبد البر، يوسف بن عبد الله،,:۲/۱۵۰۔ جامع بیان العلم:۲/۱۴۹ لابن عبد البر (368 هـ - 463 هـ)،)
ترجمہ:حضرت وکیع حضرت امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مطابق فتوےٰ دیتے تھے اور آپ کی روایت کردہ تمام احادیث یاد رکھتے تھے اور انہوں نے آپ سے بہت سی احادیث سنی تھیں۔
حافظ شمس الدین الذہبیؒ (۷۴۸ھ) بھی وکیع کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
"وقال يحيى: مارأيت افضل منه يقوم الليل ويسرد الصوم ويفتى بقول ابي حنيفة"۔
(تذکرۃ الحفاظ:۲۸۲)
(4) حضرت یحیٰ بن سعید القطانؒ(وفات ۱۹۸ھ) 
مشہور ناقد حدیث، ناقد اسانید ، اسماء رجال کے امام اور سید الحفاظ ہیں۔ یہ بھی حنفی المسلک تھے. اور فقہ حنفی کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے ۔ حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر ؒ  کا بیان ہے ’’ کان یحییٰ یفتی بقول ابی حنیفۃ‘‘   (تذکرۃ الحفاظ۱/۲۸۲۔ تہذیب التہذیب ۲/ ۴۵۰لابن حجر عسقلانی) 
(5) یحیٰ بن معینؒ (متوفی ۲۳۳ھ)جرح و تعدیل کے امام اور حدیث میں استاذ الاساتذہ ہیں۔ ان کے بارے حافظ ذہبی ؒ  کا بیان ہے کہ ان کا شمار راسخ حنفیوں میں تھا (مقدمہ نصب الرایہ ۱/۴۲) 
(6) امیر المومنین فی الحدیث، امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ (متوفی ۲۵۶ھ) محتاج تعارف نہیں، امت مسلمہ کا بچہ بچہ آپ سے متعارف ہے. آپ حدیث کی امامت کے ساتھ فقہ میں بھی مجتہدانہ شان رکھتے تھے، ان کی فقاہت تراجم بخاری میں مخفی ہے.«فقه البخاري فى تراجمه» امام شافعی کے اجتہادی اصول کی پیروی کیا کرتے تھے، 
انھیں علامہ سبکیؒ نے فقہائے شوافع میں شمار کیا ہے (طبقات الشافعیہ الکبریٰ ۲/۱ مطبوعہ مصر، تاج الدین السبکی)
 نیز مشہور اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن خاں صاحبؒ کو بھی ان کے شافعی المذہب ہونے کا اعتراف ہے۔ (ابجدالعلوم: ۸۱۰)(الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۸۵ء ۳۴ ص ۲۸۰  )
امام بخاری پر فقہ شافعی کے اثرات ان کے استاذ عبد الله بن الزبير حمیدی کے زیر اثر تھا ۔ شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی نے ’’انصاف‘‘ میں اس کو نہایت تفصیل سے ذکرکیا ہے۔
 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی امام بخاری کے سلسلے میں فرماتے ہیں: «واما البخاري فهو وان كان منتسبا الي الشافعي موافقاله فى كثير من الفقه فقد» «خالفه ايضا فى كثير الي آخره» یعنی کثرت موافقات کے سبب امام بخاری کو امام شافعی کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ جس کثرت سے موافقت ہے اسی طرح امام شافعی کی مخالفت بھی موجود ہے۔ 
علامہ انور شاہ کشمیری امام بخاری کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں :
«واعلم أن البخاري مجتهد لا ريب فيه وما اشتهر أنه شافعي فلموافقته إياه فى المسائل المشهورة و إلا فموافقته للإمام الأعظم ليس بأقل مما وافق فيه الشافعي، وكونه من تلامذة الحميدي لا ينفع لأنه من تلامذة إسحاق بن راهويه أيضا فهو حنفي، فعده شافعيا باعتبار الطبقة ليس بأولى من عده حنفيا .» [فيض الباري 58/1]
عبارت مذکورہ کا خلاصہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مجتہد تھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، اور یہ جو مشہور ہے کہ آپ شافعی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ مسائل مشہورہ میں امام شافعی رحمہ اللہ سے موافقت کرتے ہیں ، اگر یہ بات کہی جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ امام حمیدی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں جو کہ شافعی ہیں تو یہ بات بھی اس کے لیے دلیل اور فائدہ مند نہیں ہے کیونکہ آپ اسحاق بن راہویہ کے بھی شاگرد ہیں جو کہ حنفی ہیں. رہی بات امام شافعی سے موافقت والی تو آپ نے بہت سے مسائل میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے موافقت کی ہے۔شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کے حوالے سے مولانا عاشق الہی تحریر فرماتے ہیں. 
”میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ پختہ طور پر مجتہد تھے، اگر امام صاحب کو مقلد مان لیا جائے تو یہ ہمارے جیسے مقلد نہیں کہلائیں گے کہ جو امام نے کہہ دیا بس اسی پر عمل کر لیا“۔ [سوانح عمري محمد زكريا ص 334] ​
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نے امام بخاری کے بارے میں جو فرمایا کہ وہ ہمارے جیسے مقلد نہیں تھے اس کا اطلاق تمام کبار اہل علم پر ہوتا ہے. 
(7)امیر المومنین فی الحدیث امام مسلم بن الحاج القشیری،.قرآن کریم کے بعد دوسری صحیح ترین کتاب "صحیح مسلم" کے مصنف ہیں. ان کے بارے میں علامہ شیخ محسن بن یحییٰ خضری ترہتی کی شہادت ہے کہ وہ 
شافعی المسلک تھے، دیگر اہل علم نے بھی اس کی نشاندہی کی ہے ۔الیانع الجنی  ص ۴۹)(کشف الظنون)  ۔  (الانصاف) 
(8) امیر المومنین فی الحدیث امام محمد بن عیسی ترمذی؛ علامہ انور شاہ کشمیری رح کے بقول شافعی المسلک ہیں۔(عرف الشذی )۔ بعض نے حنبلی کہا ہے( الانصاف)۔
 بہر حال ہیں اصحاب تقلید میں سے ہیں 
(9) امام ابوداؤد دؒ (متوفی ۲۷۵ھ)مشہور و معروف محدث ہیں 
انکے بارے میں نواب صدیق حسن خاں کا کہنا ہے کہ ان کے فقہی ذوق کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ شافعی تھے یا حنبلی تھے. (الحطۃ فی ذکر صحاح الستہ ۲۴۰) (الحطہ ۱۲۵) بستان المحدثین۔  انصاف)
 اس اختلاف کے باوجود یہ بات طے شدہ ہے کہ امام ابو داؤد بہر حال اہل تقلید میں سے ہیں 
(10)امام محمد ابن شعیب نسائی (متوفی ۳۰۳ھ) مشہور محدث ہیں اور 
حدیث کی مشہور کتاب "سنن نسائی" کے مؤلف ہیں۔ ان کے بارے میں بھی علماء نے لکھا ہے کہ وہ فقہ شافعی ؒ کے مقلد تھے۔ خود نواب صاحب کو اعتراف ہے کہ یہ شافعی المذہب تھے۔ ’’و کا    ن شافعی المذھب‘‘ (الحطۃ فی ذکر صحاح الستہ۲۵۴)
اس پر ان کی اپنی کتاب  ’’منسک‘‘ بھی دلالت کرتی ہے۔
(11)امام ابن ماجہ209- 28 3 ھ) کے بارے میں علامہ کشمیری کی صراحت ہے کہ وہ 
شافعی المسلک ہیں۔(العرف الشذی)بعض حضرات نے انھیں حنبلی کہا ہے۔(الانصاف)   بہر حال ہیں تقلید کرتے ہیں ۔
(11) امام اسحاق راہو یہ، (161 هـ- 238 هـ / 778 - 853 م)،مشہور محدث ہیں. ان کے بارے میں ابن حبان نے کہا کہ وہ فقاہت ورع وتقوی اور علم و حفظ کی جامعیت میں اپنے زمانے کے سردار تھے. امام احمد نے فرمایا کہ وہ میرے نزدیک ائمہ میں سے ایک امام ہیں، عراق میں ان کے مثل کوئی نہیں. اگرچہ مجھ سے متعدد مسائل میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اس لیے کہ اہل علم میں بالعموم اختلاف رہا ہے. 
قال ابن حيان "كان إسحاق من سادات أهل زمانه فقهاً وورعاً و علماً و حفظاً" وقال أحمد لك يعبر الجسر إلى خراسان مثله وهو عندنا إمام أئمة المسلمين،وقال لا أعرف له في العراق نظيراًوإن كان يخالفنا في أشياء؛ فإن الناس لم يزل يخالف بعضهم بعضا.».
اسحق بن راہویہ کو علامہ سبکیؒ نے شوافع میں شمار کیا ہے۔چوں کہ آپ کے اساتذہ میں امام شافعی بھی شامل ہیں. (طبقات الشافعیہ ۱/ ۲۳۲) علامہ انور شاہ کشمیری کی تحقیق میں آپ حنفی ہیں. 
لأنه من تلامذة إسحاق بن راهويه أيضا فهو حنفي، [فيض الباري 58/1]
ایک رائے یہ ہے کہ موصوف خود مجتہد تھے.
(12)امام ابو یوسف :یعقوب بن إبراهيم بن حبيب الأنصاري الكوفي البغدادي،(113 - 182 هـ = 731 - 798 م) عظیم محدث اور عالی مرتبت فقیہ ہیں، محدثین لکھتے ہیں :
كان فقيها علامة، من حفاظ الحديث.
وتفقه بالحديث والرواية، ثم لزم أبا حنيفة، فغلب عليه «الرأي»( الاعلام للزکلی.) لیکن حدیث وفقہ میں جلالت شان کے باوجود اپنی فقاہت اجتہاد کو اپنے استاذ امام ابو حنیفہ کے تابع کردیا اور دنیا انھیں فقہ حنفی کے "شیخین" اور "صاحبین" میں سے ایک کے طور پر جانتی ہے. 
(13) مشہور محدث دار قطنی حافظ أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد  البغدادي (306 هـ - 385 هـ)
یہ بھی شوافع میں شمار کئے گئے ہیں ۔(حوالہ سَابق: ۲/ ۳۱۰) 
(14) امام دارمی، عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی (181- 255) مشہور محدث ہیں، ان کی کتاب سنن دارمی کو اہل علم کے نزدیک بڑی اہمیت ہے، بعض نے ابن ماجہ کی جگہ اسے صحاح ستہ میں شامل کیا ہے، اسی بات کی طرف ابن حجررحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ سنن دارمی دیگر سنن کتب سے درجے میں کم نہیں ہےاگر اس کو کتب اربعہ میں شامل کردیا جاتا تو یہ بہتر تھا۔(تدریب الراوی :۱؍۱۷۴)
اکثرعلماء کا کہنا ہےکہ اگر دارمی کو کتب ستہ میں شامل کرلیا جاتا تو یہ بہتر تھا، جس میں ابن صلاح ،امام نووی، صلاح الدین العلائی اور ابن حجر رحمہ اللہ کے نام شامل ہیں۔(الرسالۃ  المستطرفہ:۱؍۱۳)
سنن دارمی میں ابواب کی بہترین فقہی ترتیب سے امام دارمی رحمہ اللہ کاحدیث کے ساتھ فقہ میں نمایاں مقام مرتبہ بھی ظاہر ہوتاہے. ان کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا بیان ہے کہ وہ حنبلی المسلک ہیں……( الانصاف،مقدمہ الکوکب الدری ص 15) 
(15)مشہور محدث ابوعوانہ اسفرائنیؒ (متوفی ۳۱۶ھ)کا شمار بھی اسی فہرست ہوتا ہے. 
ان کی مشہور معروف کتاب "صحیح ابوعوانہ" ہے۔ حضرت کا رجحان مسلک شافعی کی طرف تھا ۔ حافظ ذہبی نے اس ذوق کی نشاندہی کی ہے. (تذکرۃ الحفاظ ۲/ ۳)
(16) مكي بن إبراهيم ، (126-214 ھ) بڑے پایہ کے محدث ہیں. امام اعظم ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں اور امام بخاری کے عظیم اساتذہ میں سے ہیں. بخاری شریف کی ایک عظیم خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح میں بائیس روایات ثلاثيات میں سے ذکر کی ہیں؛ یعنی ایسی روایات جن میں صرف تین راویوں کا واسطہ ہے، ان میں سے گیارہ روایات انھی  مکی بن ابراہیم کی سند سے روایت کرتے ہیں. ان کا رجحان امام ابو حنیفہ کی طرف تھا.  مکی بن ابراہیم  کا قول ہے کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ روئے زمین پر سب سے بڑے عالم تھے ۔ 
قال مكي بن إبراهيم : كان أبو حنيفة أعلمَ أهلِ الأرض. (البداية والنهاية، ١٠/ ١١٠)
اتفاق کی بات یہ ہے کہ مکی بن ابراهيم کے علاوہ ثلاثیات روایت کرنے والے دیگر تینوں راوی بھی امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں. 
(17) امام محمد بن حسن شیبانی، فقہ و شریعت میں مہارت کے ساتھ حدیث کے بھی امام ہیں. انھیں امام دار قطنی جیسے محدث نے یحییٰ بن سعید قطان اور عبد اللہ بن مبارک کے معیار کا ثقہ اور حافظ قرار دیا.  «حدث به عشرون نفراً من الثقات الحفاظ منهم محمد بن الحسن الشيباني، ويحيى بن سعيد القطان وعبد الله بن المبارك وعبد الرحمن بن مهدي وابن وهب وغيرهم».  "نصب الراية" (1|408). 
 ان کے بارے میں علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ وہ تمام علوم بالخصوص علم فقہ کے سمندر تھے، اور امام مالک سے مضبوطی کے ساتھ روایت کرتے ہیں. «وكان من بحور العلم والفقه، قوياً في مالك» الذهبي في ميزان الاعتدال (6|107)
امام محمد فقہ میں امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے جلیل القدر ائمہ کے استاذ ہیں. 
وقال المزني: سمعت الشافعي، يقول: «أَمَنُّ الناس عليّ في الفقه محمد بن الحسن».
امام مزنی کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھ پر فقہ کے سلسلے میں تمام لوگوں میں سب سے بڑا احسان امام محمد کا ہے. میں نے دو اونٹ بو جھ کے بقدر میں نے ان سے علم حاصل کیا. 
 قال إبراهيم الحربي: قلت للإمام أحمد: «من أين لك هذه المسائل الدقاق؟». قال: «من كتب محمد بن الحسن».ابراہیم حربی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے دریافت کیا کہ اتنے دقیق مسائل آپ کہاں سے اخذ کرتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ امام محمد بن حسن کی کتابوں سے. 
سير أعلام النبلاء (9|136)
اس عظمت کے باوجود امام محمد نےاپنے اجتہاد کو امام ابو حنیفہ کے اجتہاد کے تابع کردیا اور تاحیات اپنے شیخ کے علوم اور ان کی فقہ کی تدوین میں مصروف رہے. 
 (18)امام بیہقی :احمد بن حسين بن علي بن موسى أبو بكر ( 384 - 458 هـ = 994 - 1066 م) مشہور محدث اور متعدد کتب حدیث کے شہرۂ آفاق مصنف ہیں، ان کا شافعی المسلک ہونا ظاہر باہر ہے. امام الحرمین شیخ ابوالمعالی جوینی کہتے ہیں کہ ہر شافعی المسلک، امام شافعی کا منت کش ہے؛ لیکن بیہقی امام شافعی کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ فقہ شافعی کی تائید میں انھوں نے بیش بہا کتابیں تصنیف کیں. 
قال إمام الحرمين: ما من شافعي إلا وللشافعي فضل عليه غير البيهقي، فإن له المنة والفضل على الشافعي لكثرة تصانيفه في نصرة مذهبه وبسط موجزه وتأييد آرائه.
علامہ ذہبی کی شہادت ہے کہ وہ اس پایہ کے محقق تھے کہ ایک مستقل مذہب کی بنیاد رکھ سکتے تھے لیکن احتراما اپنے اجتہاد کو امام شافعی کے تابع کردیا. 
وقال الذهبي: لو شاء البيهقي أن يعمل لنفسه مذهبا يجتهد فيه لكان قادرا على ذلك لسعة علومه ومعرفته بالاختلاف.(سیر اعلام النبلاء) 
(19) امام ابو ثور بغدادی(170 ھ) : 
شہرۂ آفاق محدث ہیں، انھیں اہل علم نے الإمام، الحافظ، الحجة، المجتهد ، مفتي العراق ، الفقيه ،جیسے بلند القاب سے یاد کیا ہے [ سیر اعلام النبلاء  ] 
موصوف اجتہادی شان کے حامل تھے، شروع میں وہ حنفی تھے اور فقہ حنفی کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے. امام شافعی سے ملاقات کے بعد شافعی ہوگئے تھے، 
وفي "العبر" برع في العلم ولم يقلد أحداً وصنف كتباً في الأحكام جمع فيها بين الحديث والفقه وكان حنفياً حتى قدم الشافعي العراق فاختلف إليه وتشفَّع. ذكره ابن خَلِّكان.
فقد قال الرافعي أبي ثور وان كان معدوداً في طبقات أصحاب الشافعي فله مذهب مستقل فهو مجتهد مطلق. (طبقات الفقهاء 1/112,190,طبقات الشافعية 2/) 
رافعی کہتے ہیں کہ ابو ثور کا شمار اگرچہ فقہاء شافعیہ میں ہوتا ہے لیکن لیکن سچائی یہ ہے کہ وہ مجتہد مطلق ہیں. 
امام احمد بن حنبل سے کوئی مسئلہ دریافت کرتا تو وہ ان لوگوں کو مسئلہ دریافت کرنے کے لیے ابوثور کے پاس بھیج دیا کرتے تھے.
 وقال أبو العباس البراثي: كنت عند أحمد بن حنبل، فسأله رجل عن مسألة في الحلال والحرام، فقال له أحمد: سل عافاك الله غيرنا، قال: إنما نريد جوابك يا أبا عبد الله، فقال: سل عافاك الله غيرنا، سل الفقهاء، سل أبا ثور. (وفيات الاعيان لابن خلكان-) 
 (20)  امام طحاویؒ (متوفی ۳۲۱ھ)
بڑے پایہ کے محدث ہیں اور مشکلاتِ حدیث کے حل میں ان کا جواب نہیں۔ موصوف کا حنفی المسلک ہونا عالم آشکارا ہے. آپ حنفی ہی نہیں بلکہ حنفیہ کے وکیل بھی ہیں. پہلے اپنے ماموں امام مزنی کے زیر اثر شافعی المسلک تھے ۔(تذکرۃ الحفاظ ۳/ ۲۸۸) 
(21)امام محمد بن عبداللہ عبدالحکم (متوفی ۲۰۸ھ)
ان کا شمار بڑے حفاظِ حدیث میں ہے۔ یہ فقہ مالکی کے پیرو تھے. 
علامہ ذہبی لکھتے ہیں ’’احد فقھاء المصر من اصحاب مَالکٔ‘‘۔  (تذکرۃ الحفاظ ۲/ ۱۱۶) 
(22) امام ابوبکر احمد بن محمد المروزی (متوفی ۲۷۵)
بڑے ائمہ حدیث میں ہیں اور حنبلی المذہب ہیں. علامہ ذہبی لکھتے ہیں ۔ ’’اجل اصحاب احمد ابن حنبلؒ‘‘(تذکرۃ الحفاظ ۲؍۱۸۵) کتب سوانح کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ شہرہ آفاق محدثین کے فقہی مذاہب کے بارے میں متعدد آراء ہیں، گذشتہ سطور میں جو کچھ لکھا گیا وہ راجح قول کے مطابق ہے. اس کے علاوہ دیگر اقوال بھی ہیں؛ جو اپنے مقامات پر تفصیل سے مذکورہ ہیں 
ائمہ متبوعین کس مسلک کے پیرو تھے؟ 
ایک سوال عام طور پر یہ کیا جاتا یے کہ دیگر محدثین وفقہاء ائمہ متبوعین کی تقلید کرتے تھے تو خود ائمہ متبوعین  کس کی تقلید کرتے تھے۔۔اس کا جواب یہ یے کہ اول تو مجتہد پر تقلید لازم نہیں ہے؛ اس کے باوجود وہ احتراما یا احتیاطاً اپنے سے اوپر کے سلف صالحین کی تقلید کرتے تھے؛ .اگر ان کے اقوال خاص مسئلہ میں موجود ہوتے؛ ان کی عدم موجودگی میں پیش آمدہ مسائل میں وہ اجتہاد کرتے تھے۔۔۔چنانچہ اسی نسبت علمی کے بارے میں امام ابو حنیفہ سے مشہور عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور نے سوال کیا تھا ... ان کے جواب میں امام ابو حنیفہ نے کہا کہ میں نے حماد سے، انھوں نے ابراہیم نخعی سے اور انھوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اور حضرت علی بن ابی طالب سے اور عبد اللہ بن مسعود سے اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے سنا .. ایک روایت میں ہے کہ میں نے حضرت عمر کے تلامذہ سے اور حضرت علی کے تلامذہ سے اور حضرت عبداللہ بن مسعود کے اصحاب سے اور عبداللہ بن عباس کے تلامذہ سے انھوں نے اپنے اساتذہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسب فیض کیا. 
 (عمن أخذتَ العلم يا أبا حنيفة؟
قال أبو حنيفة : دخلت على أبي جعفر المنصور أمير المؤمنين ، فقال لي : يا أبا حنيفة ، عمَّن أخذتَ العلم ؟ قلت : عن حماد عن إبراهيم عن عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد الله بن مسعود وعبد الله بن عباس ،... (تاريخ بغداد للخطیب)

وفي رواية ؛ قال : عن أصحاب عمر عن عمر ، وعن أصحاب علي عن علي ، وعن أصحاب عبد الله عن عبد الله ، وما كان في وقت ابن عباس على وجه الأرض أعلم منه ،... (الطبقات السنية)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ودیگر ائمہ متبوعین سے پہلے فقہ مدون نہیں تھی؛ اس لیے اس سے پہلے کس کی فقہ کو مانا جاتا تھا؟ یہ سوال ہی عبث ہے ۔ جسے جس کی فقہ دلائل براہین کی روشنی میں قابل اعتماد اور لائق اطمینان محسوس ہوئی ؛ انھوں نے تسلیم کر لی ۔ ہاں! فقہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے ۔ فقہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے کسی کی خانہ ساز نہیں ۔امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، اور امام مالک رحمہم اللہ کی فقہ پر امت مسلمہ کا عمل صدیوں سے رہا ہے ۔ اس لیے تقلید پر بے بنیاد شبہات پیدا کرنا بڑی ناانصافی کی بات ہے ۔
علماء حق نے ہر زمانہ میں ائمہ اربعہ کی عظمت اور ان کی فقہی خدمات کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے. اور اپنی تمام تر قابلیت کے باوجود علی وجہ البصیرۃ ان کی تقلید کی راہ اختیار کی ہے. 
علامہ انور شاہ کشمیری اس طرح گویا ہیں کہ ”ہر علم و فن میں اپنی مخصوص رائے رکھتا ہوں، کسی کا مقلد نہیں باستثنائے فقہ کہ اس میں میری کوئی رائے نہیں،ابو حنیفہ کی تقلید کرتاہوں“(نقش دوام 441)
اور یہی سلامتی کی راہ بھی ہے کہ فقہاء محدثین کا ہمیشہ خیر کے ساتھ ذکر کیا جائے. ان کے علوم ومعارف سے استفادہ کیا جا ئے اوران میں سے کسی ایک کی تشریح پر اعتماد کرتے ہوئے ہم دین پر عمل پیرا ہوں.ان کے اجتہادات اور فقہی اختلافات کو آپس کی مخالفت اور نزاع کا سبب نہ بنائیں ..اس لیے کہ ہم اسی کے مکلف ہیں. اور ہمیں اسی عقیدہ کی تعلیم دی گئی ہے. امام طحاوی رقم طراز ہیں :
وَعُلَمَاءُ السَّلَفِ مِنَ السَّابِقِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ - أَهْلِ الْخَيْرِ وَالْأَثَرِ، وَأَهْلِ الْفِقْهِ وَالنَّظَرِ - لَا يُذْكَرُونَ إِلَّا بِالْجَمِيلِ، وَمَنْ ذَكَرَهُمْ بِسُوءٍ فَهُوَ عَلَى غَيْرِ السَّبِيلِ(العقیدۃالطحاویۃ )
’’اور علماء سلف صالحین جو پہلے گزرچکے ہیں اور اُن کا اتباع کرنے والے اور اُن کے بعد آنے والے بہتری اور نیکی والے لوگ اور حدیث نقل کرنے اور اہل فقہ (فقہ کے ماہر) اور نظر وقیاس والے بزرگ اُن سب کا ذکر سوائے نیکی کے درست نہیں اور جو شخص اُن کو برائی سےذکر کرے گا وہ راہِ راست پر نہیں ہوگا ۔‘‘
اللھم اھدنا الصراط المستقیم والحقنی الصالحین
محمد خالد حسین نیموی قاسمی

 


: ٹیگز



السابق
اتحادِ عالمی برائے مسلم اسکالرز نے قابض افواج کی طرف سے قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں